سفرِ دشت….. سفرِ رُوح…..سفرِ کائنات
صحرا…فنائے لیلیٰ قَیس کی شبِ فراق کی علامت ہیں… یہ پیاسے بھی ہوتے ہیں… سراب بھی دکھاتے ہیں… اور سیراب بھی کر جاتے ہیں…خوبصورت چہرہ ہو، دریا ہو یا کسی شہر و بیابان کا حْسن، دونوں آوارہ گرد بناتے ہیں،محبوب کا ہر رْخ محبوب ہی ہوتا ہے…اور محبوب کا سایہ.. اور محبوب کی خوشبو جو کسی اورسے آ رہی ہو…
صحرا کشش رکھتے ہیں…ان کی راتیں سرد ہوتی ہیں.. چاندنی راتوں میں ریت کے ذرات چمکتے ہیں… اور اندھیری راتوں میں اِک کائنات مائل بہ وصل ہوتی ہے اور بے حجاب کائنات کیا ہوتی ہے؟
خدا نے پیغمبری عطا کرنے سے پہلے شہزاہ مصر موسیٰ کو صحرائے سِینا میں دھکیل دیا تھا… پھر اُن سے کوہ پیمائی بھی کروائی.. تب جلوہ طور نصیب ہوا…غارِ حرا کی کہانی بھی مختلف نہیں…وہ بھی ایک بندہ صحرائی و کوہستانی کی داستان ہے۔ کچھ تو ایسا ہے، بیابانوں میں جو شہروں میں نارمل زندگی بسر کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں…
بظاہر صحرا نارمل زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں مگر صحراوئں میں زندگی بہت پراسرار طریقوں سے موجود رہتی ہے۔صحرا کی رات مسافرِ شَب پر کیسی بِیتتی ہے؟ واصف علی واصف کہتے ہیںکہ’’شب بیدار صرف رات میں بیدار رہنا جانتا ہے، باقی کام رات خود کرتی ہے۔‘‘ اور اگر یہ رات صحرائے چولستان میں گزاری گئی ہو تو…؟ قصہ مختصر، یہ داستانِ لیلیٰ مجنوں ہے۔
کوہ نوَردوں کی ایک ٹِیم شمال کے کوہستانوں کی بجائے جہلم و راوی و چناب کے پار جنوب کے اِک صحرا میں جا پہنچتی ہے… صحرائی بستیوں کی خاک چھانتی ہے… اپنی خاک کو پہچاننے کی کوشش کرتی ہے… اَن دیکھی سمتوں میں جذب ہوتی ہے… اور تب ’’چولستان میں ایک رات‘‘ تخلیق ہوتی ہے۔یہ سفرنامہ اِسی کی رومانوی داستان ہے۔
Be the first to review “Cholistan Me Aik Raat”